رب کی تقسیم کبھی غلط نہیں ہو سکتی

رب کی تقسیم کبھی غلط نہیں ہو سکتی




 "رانو " کالج جانے  کے لئے تیار ہو رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے کمرے کی چیزیں بھی سمیٹ  رہی تھی   باہر سے چھوٹے  بہن بھائیوں کے لڑنے کی  آوازیں بھی لگا تار  آ رہی تھیں جو اس گھر کا تقریباً  روز کا معمول تھا 

 یہ بات  رانو کو بہت تکلیف دیا کرتی تھی کہ ان کے  گھر کا ماحول اس کی سہیلیوں کے گھر جیسا کیوں  نہیں ہے 

رانو کو 

 صبح  ہوتے ہی یہ  گھر ایک چڑیا گھر  لگا کرتا تھا 

یہ گھر چھ لوگوں پر مشتمل تھا رانو کے  ماں باپ دو بھائی اور ایک دادی

 بہت بڑا کنبہ  تو نہیں تھا مگر ان سب افراد کی دیکھ بھال  کی ذمہ داری صرف رانو کی ماں کے کندھوں پر تھی 

______

 عاصم (رانو کا  بھائی )

ماں سے 

 اماں قاسم سے  پہلے ناشتہ مجھے دینا 

 روز  سکول سے دیر ہو جاتی  ہے اور  میرے سب  دوست مجھ سے پہلے سکول پہنچ جاتے ہیں اور ماسٹر روز کلاس میں لیٹ پہنچنے کی وجہ سے کان پکڑوا کر کونے میں کھڑا کر دیتے ہیں ۔

اچھا پتر 

 اماں  ہمیشہ کی طرح آج گالیاں نہیں دے رہی تھی بلکہ بڑے آرام سے جواب دیا تھا   دوسری طرف رانو کی دادی بھی چائے مانگ رہی تھی اور ساتھ بہو  کو لگا تار  برا بھلا بھی کہہ رہی تھی

 آج یہاں بھی  بات مختلف تھی،

 اماں  نے پلٹ کر  ایک لفظ  بھی دادی کو نہیں کہا تھا 

ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ  اماں کسی کو پلٹ کے  نا جوتا مارے اور  نا گرم  چمٹے سے کسی کا ہاتھ سیکے  

 کچھ بھی تو  نہیں ہو رہا تھا پہلے جیسا 

اور  تو اور دادی کو آج گھی  والا پراٹھا وہ بھی گرما گرم چائے کے ساتھ  دیا  گیا تھا بچوں کو بھی ناشتے کے ساتھ  سر پہ پیار دے کر دروازے تک رخصت کیا  گیا تھا 

رانو بڑی  حیران ہو رہی تھی کہ یہ کون سی جادو کی چھڑی  ہے کہ اماں راتوں رات بدل گئی  ۔۔۔۔ 

اس سوچ کو  جھٹک کر جلدی سے 

  وہ  آئینے میں دیکھ کر اپنے بال

بنانے لگتی ہے 

اماں کی آواز  سے وہ جلدی جلدی کاجل لگا کر باہر نکل آتی ہے 

ماں صحن میں  دائیں سائیڈ پہ بنے  چولہے پر تیزی سے  پراٹھے بنا رہی ہوتی ہے 

رانو آ جا جلدی 

تجھے دیر ہوئی تو تیری شہر جانے والی بس نکل جانی ہے 

 اچھا اماں رانو

پیڑھی  کھینچ کے اماں کے پاس  ہی بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگتی  ہے 

ماں پراٹھے  بنا رہی ہوتی ہے کہ رانو کی نظر  ماں کی کلائی پر پڑتی ہے جہاں  سرخ رنگ  کی کانچ کی چوڑیاں اماں کی  کلائی پر بہت خوبصورت لگ رہی ہوتی ہیں ، اور 

روٹی بناتے ہوئے چوڑیوں کی کھنک  سے اماں کے چہرے کی  لالی دیکھی جا سکتی تھی  ۔۔۔۔

رانو  

اماں یہ  چوڑیاں کب لیں ؟

اماں  روٹی پکاتے ہوئے دھیمی سی  مسکراہٹ کے ساتھ ، آنکھوں میں کاجل لگائے آج رانو کو اپنی سہیلیوں کی ماؤں  جیسی اپنی ماں لگی  تھی۔

 ٹھنڈی چھاؤں جیسی ۔۔۔۔

 

رانو 

 تیرا ابا رات کا  شہر سے آ گیا ہے۔۔۔۔

جا دیکھ بیٹھک میں سوکے اٹھ گیا ہے تو ناشتہ دو ۔

رانو ! اچھا اماں 

رانو صحن سے گزر کر بیٹھک تک جاتے  ہوئے یہ  سوچ رہی تھی 

کاش ابا شہر میں نہیں گاؤں میں ہی کہیں کام کرتا تو میری ماں کے چہرے پہ یہ  خوشی ہمیشہ  رہتی اور ہمارے گھر کی ترتیب ہمیشہ  ٹھیک رہتی 

ایک  ابا کے  گھر پہ  نا ہونے سے ہمارا پورا گھر بے ترتیب ہو جاتا ہے  دادی 

رانو کو دیکھتے ہوئے 

 یہ برتن اپنی ماں  کو پکڑا دے پتر 

رانو 

اچھا دادی !

برتن پکڑتے ہوئے 

دادی ایک بات تو بتا جب بھی ابا واپس آتا ہے تو اماں نا کسی کو گالیاں دیتی ہے نا لڑتی ہے اس کی کیا وجہ ہے 

دادی مسکراتے ہوئے رانو پتر 

گھر کے سائیں کی برکت ہی اور ہوتی ہے گھر کا مرد ہی گھر کا بوجھ ڈھوتا اچھا لگتا ہے

عورت جتنا مرضی پڑھ لکھ لے خود کمانے بھی لگ جائے پھر بھی مرد کی برابری نہیں کر سکتی ۔

پتر رب کی تقسیم کبھی غلط نہیں ہو سکتی ۔ مرد کو معاشرے نے  نہیں 

یہ مقام اسے خدا نے عطا کیا ہے۔

اور رہی تیری ماں  کی بات، تو اس کو بہت جاڑے  کاٹنے پڑتے ہیں تو بچاری تھک جاتی ہے ۔

اک بات ھور  پتر 

عورت تب تک عورت رہتی ہے ، جب تک اس کو احساس دلانے والا اس کے دکھ بانٹنے والا پاس رہتا ہے 

 بیشک مرد کمانے کے لئے ہی پردیس کیوں نا  جائے  پتر دوری تو دوری ہوتی ہے اور عورت

ہری بھری بیل سے خشک ٹہنی بن جاتی ہے !!!!



Post a Comment

0 Comments