طلاق کیوں هوئی

 طلاق کیوں هوئی



 ایک دوست گول بازار سرگودها شاپنگ کر رها تھا اُس کی بیٹی کا فون آیا کہ ابو آپکے داماد نے مجهے فارغ کر دیا 

*علیحدگی دے دی هے* 

فورا آئیں اور مجهے لے جائیں 

بیٹی کی یہ بات سن کر وه دوست بائیک دوڑاتا گهر کو واپس چلا 

ان هی سوچوں میں گم هو گا راستے میں  چلتی بائیک پر  هارٹ اٹیک هوا  بجلی کے پول سے ٹکرایا اور وهیں سڑک پر جان دے دی 

بظاهر یہ بات اتنی سی هے کہ هارٹ اٹیک هوا اور بنده فوت هو گیا وقت مقرر تها لیکن نہیں

 *میں نہیں مانتا*

کوئی بات تو تهی جو ایک اچهے بهلے صحت مند آدمی کی اچانک موت کا باعث بنی اِس میں کہیں نا کہیں تو انسانی غلطی نے بهی اپنا حصہ  ڈالا هو گا

علیحدگی کے کچھ دن بعد میں بچی سے ملا اور پوچها کہ بی بی تین  بچوں کیساتھ خاوند نے جو تمہیں چهوڑ دیا *کیا بات هوئی تهی*

 تمہارا فسٹ کزن بهی تو تها

 اُس بیٹی نے جو بهی وجہ بتائی وه مجهے سمجھ نہیں آئی الزامات کی ایک لمبی فہرست تهی لیکن وه صاحبزادی مجهے کہیں بهی یہ نا بتا سکی کہ معاملات کی بہتری کیلئے خود اُس نے کیا کیا ؟

 ایک بات میں نے بطور خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے هاتھ میں ڈیڑھ لاکهہ والا آئی فون تها 


مرحوم دوست میرے رشتے دار بهی تهے اُنکا سابقہ داماد اعلی تعلیم یافتہ اور ایک محترم ادارے میں سکول ٹیچر هے  

چند دن بعد میں بطور خاص اُسے ملنے گیا  پوچها کہ جوان تم جو اتنی انتہا پر پہنچے *اپنے بچے تک چهوڑ دیے* کیا تمہیں بچے پیارے نا تهے هوا کیا تها کس بات نے تمہیں اتنا مجبور کیا 

وه بولا کہ سر میری *دو سالیاں هیں* دونوں اِنتہائی امیر گهروں میں بیاهی هوئی  کوٹهیوں کاروں اور نوکر چاکروں والی  

جب بهی میری بیوی اپنی بہنوں کو مل کر آتی میرے گهر جهگڑا شروع هو جاتا مجهے بات بات پر غریبی کے طعنے ملتے میں چالیس هزار ماهانہ کا ملازم هوں جتنا کر سکتا تها اِنتہائی حد تک  کیا لیکن اب بات برداشت سے باهر تهی

اُس نے مزید کہا کہ مجهے اپنی بیوی بہت پیاری تهی میرے پاس تین هزار والا موبائل هے *بیگم کو میں نے آئی فون لیکر دیا* 

پهر کار کا مطالبہ هوا *بنک لون سے کار لیکر دی*

 پرانا فرج بیچ کر قسطوں پر فل سائز نیا فرج لیا پهر اے سی کا کہا گیا اے سی لیکر دیا اِس سب کے باوجود طعنے هی طعنے میں اپنی نظر میں هی حقیر بن چکا تها

علیحدگی والے ماه  بجلی کا بل تیس هزار  آ گیا *چالیس هزار کل تنخواه میں سے میں کیا کرتا* دس هزار تو صرف ماهانہ دودھ کا بل بنتا تها اُوپر سے بیگم کی فضول کی باتیں 

 میں پہلے هی بیگم کی پچهلی لامحدود خواہشات سے تنگ تها بالکل ناک میں دم آ چکا تها فوری جهگڑا  اُس بل پر هوا اور بات اِس انتہا تک پہنچی 

 یہ بات کرتے کرتے وه رو پڑا 

 ساری بات سن کر میں نے اپنا سر جهکایا اور گهر واپس آ گیا اللہ  کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو اپنے بیٹوں کو کم از کم خواہشات کیساتھ زنده رہنا بتایا 

اس وقت وه علیحدگی یافتہ بیٹی  

اپنے شادی شده بهائی کے تین مرلہ مکان کے  اوپر والے ایک کمرے میں ره رهی هے 

 جب بجلی بند هو تو اِس کمرے میں بنده ایسے هو جاتا جیسے بهٹی میں دانے بهنتے هیں نا اوپر واش روم هے اور نا کچن بچے نیچے جائیں تو اُن کی ممانی تهپڑ لگا کر  اوپر واپس بهگا دیتی هے 

 گوری چٹی اور سرخ و سفید چهبیس سالہ لڑکی صرف ایک سال میں پچاس سال کی اماں نظر آتی هے سنا هے کسی پرائیویٹ سکول میں نو دس هزار کی نوکری بهی شروع کر دی ہے

کہانی حقیقت پر مبنی ہے بہت سی بہنیں بہک جاتی ہیں کہانی تھوڑے فرق کے ساتھ سب کی ایک جیسی ہے خدارا سمجھداری سے کام لین اپنے گھر کو خود جنت بنائیں کسی کے بھی بہکاوے میں نا آئیں



Post a Comment

0 Comments